تمشی علی استحیاء۔ (قصص)
پہلا نکتہ۔
ایسا نہیں کہا کہ۔وہ حیا سے چل رہی تھی بلکہ کہا گیا وہ استحیاء پر چل رہی تھی، یعنی
الحیاء مطلوب من الطرفین لکن عند المراةمطلوب اکثر۔
حیا دونوں طرف سے مطلوب ہے ۔ہاں،یہ صفت عورت میں زیادہ مطلوب ہے۔
دوسرا نکتہ۔
انتبہ لخطواتک فمشیتک لغة.
چال کے بارے میں ہوشیار رہو۔ اس لیے کہ
آپ کی چال بھی ایک language ہے۔
تیسرا نکتہ۔
لاقيمةلورد دون عبیرہ۔
پھول میں خوشبو نہ ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
اور عورت میں حیا نہ ہو تو اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔
چوتھا نکتہ۔
حیاء المراة یعرف من خطواتھا۔عورت کی چال سے اس کی حیا کا اندازہ ہوتا ہے۔
پانچواں نکتہ۔
اس پورے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے بطور خاص حیا کا ذکر کیا گیا ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت کی زندگی میں حیا کا کیا مقام ہے۔
چھٹا نکتہ۔
عجیب بات ہے کہ۔
لڑکا، لڑکی کو پسند کررہا ہے اس کی حیا کی وجہ سے۔اور لڑکی،لڑکے کو پسند کررہی ہے اس کی قوت اور امانت داری کی وجہ سے۔
آج کل لوگ نہ جانے کیا کیا دیکھ کر شادی کرتے ہیں۔
ساتواں نکتہ۔
الانوثة حیاء قبل ان تکون ازیاء۔
عورت حیا کا نام ہے۔فیشن کا نہیں۔
آٹھواں نکتہ۔
ایسا نہیں کہا کہ وہ لڑکی حیا سے چل رہی تھی بلکہ علی استحیاء کہا گیا کہ وہ لڑکی حیا پر چل رہی تھی گویا حیا اس کا مرکوب )سواری) تھی
نواں نکتہ۔
حضرت شعیب نے اپنی بیٹیوں کی تربیت حیا پر کی تھی تو داماد نبی ملا ۔
معلوم ہوا۔ثمرةالحیاءوالعفة،النکاح المبارک ۔
دسواں نکتہ۔
پہلے دو لڑکیاں تھیں بعد میں موسی علیہ السلام کو بلانے ایک لڑکی آئی،اس کے لیے کہا گیا کہ اس کے اندر استحیاء تھا۔کہ یہ اب اکیلی آئی ہے تو حد درجہ شرمارہی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ۔ایک پاکدامن عورت اگراکیلی ہوتو اس کےاندر اور حیا ہونی چاہئے نہ کہ اس کے اندر اور جرات پیدا ہوجائے۔
گیارہواں نکتہ۔
حیا اور حیاةدونوں کا مادہ حیی ہے ۔معلوم ہوا کہ عورت کے اندر حیا نہ ہو تو وہ چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں۔
فسبحان من ھذا کلامہ۔
نوٹ۔
لاریب۔قرآن حکیم ،اسرار و معانی کا ایک بحر زخار ہے۔
((حافظ جلال الدین قاسمی))
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں