ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمةانعمھا علی قوم حتی یغیرواما بانفسھم،(انفال)
لم یک اصل میں لم یکن تھا۔لم کی وجہ سے صرف حرف علت (واو) کو گرنا تھا۔
اس سے نون کے حذف کا نکتہ۔
یہ بات جو کہی جارہی ہے اتنی اہم ہے کہ بہت ہی مختصر انداز میں کہی جائے تاکہ لوگ فورا اس پر توجہ دیں،اس میں تاخیر بالکل نہ کریں۔
دوسرا نکتہ۔
کان فعل مضارع کی نفی،نفی اور منفی کے تجدد کا تقاضا کرتی ہے
قوم،نکرہ ہے ،یعنی کوئی بھی قوم ہو خواہ مسلم ہو یا کافر۔۔
یہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
(حوالے میں،آل فرعون کو پیش کیا گیا)
مغیرا میں تغییر کا مطلب ہے۔ابدال الشیئ بضدہ۔جیسے کفر کو شکر سے بدلنا۔ اور حالت حسنہ کو حالت سیئہ میں بدلنا۔
ما بانفسھم۔ میں ما موصولہ ہے جو عموم پر دال ہے یعنی جو بھی غلط اعتقادات ،اقوال، اعمال ,تقالید اوررسوم ہیں
باء۔۔ملابست اور الصاق کے لیے ہے۔
یعنی وہ غلط اعتقادات ،اقوال اور اعمال جو تمھارے انفس( ذوات) سے اس طرح چمٹے ہوئے ہیں جیسے لباس ،بدن سے چپکے ہوئے ہوتے ہیں۔
نکتہ۔ اور جب لاحق کی نفی ہوگئی تو سابق کی نفی بدرجہ اولی ہوگئی۔
اور بان ،میں باء سببیہ ہے ، جس کا مطلب ہے کہ اللہ کسی پر ظلم نہی کرتا ہے وہ نعمتیں چھینتا ہے تو اس کاکوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔
انعم فعل ماضی لا کر بتایا گیا کہ ساری نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔
((حافظ جلال الدین القاسمی))
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں