أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (24)
سورة إبراهيم 14 آیت: 24
تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (25)
سورةإبراهيم14 آیت: 25
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی کلمہ ایمان کی۔ کہ وہ ایک پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑ خوب گڑی ہوئی ہے اور شاخیں اونچائی میں جا رہی ہیں۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے،اور اللہ تعالٰی لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
آیت کریمہ کے اسرارو نکات
الم تر یا محمد بعین قلبک،فتعلم کیف مثل اللہ مثلا کشجرةطیبة۔
قال ھی النخلة۔ لاتزال فیھا منفعة
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے اپنے دل کی آنکھ سے نہیں دیکھا تو اپ کو معلوم ہوجاتا کہ اللہ نے کیسے پاک درخت سے مثال دی اور وہ درخت کھجور کا درخت ہے جس میں ہمیشہ فائدہ رہتا ہے.
یہاں کلمہ طیبہ سے مراد ایمان ہے۔ اور شجرہ طیبہ سے مراد عمل صالح ہے۔ اور ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں۔
یہاں کلمہ طیبہ مشبہ ہے اور شجرہ طیبہ،مشبہ بہ ہے۔
اور شجرہ طیبہ سے نخلہ یعنی کھجور کا درخت مراد ہے
کھجور کے درخت کی خصوصیت ہے کہ۔ اگر کسی درخت کا سر کاٹ دیا جائے تو اپنے کناروں سے شاخ درشاخ نکل کر پھیلتا یے۔ جبکہ کھجور کے درخت کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے۔ نیز اس درخت کی کوئی چیز بیکار نہیں ہوتی۔ اس کا ایک ایک جز،کارآمد ہے۔
نکتہ بدیعہ۔
درخت اور ایمان میں فرق یہ ہے کہ درخت کی جڑ کو کھود کر نکا لا جاسکتا ہے،مگر مومن کے دل سے ایمان کو نہیں نکالا جاسکتا۔
دقیقہ عظیمہ
ان الشجرةلایکون شجرةالا بثلاثةاشیاء۔
عود راسخ
اصل قائم
فرع عال
درخت اس وقت تک درخت نہیں ہوتا جب تک اس میں تین چیزیں نہ پائی جائیں۔
مضبوط تنا
مضبوط جڑ
بلند شاخ
اسی طرح ایمان،ایمان۔ نہیں ہوتا جب تک تین چیزیں۔نہ پائی جائیں۔
تصدیق بالجنان
قول باللسان
عمل بالابدان
اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء
ڈالیوں کی بلندی،جڑ کی مضبوطی کی دلیل ہے اسی طرح ڈالیاں جتنی بلند ہوں گی اتنی زمین کی عفونت وگندگی سے محفوظ رہیں گی۔ جس کے نتیجے میں پھل ہر قسم کی گندگی سے پاک ہوں گے۔
تؤتی اکلھا کل حین۔
کھجور کے درخت میں ہمیشہ پھل موجود رہتے ہیں۔ بخلاف۔ دیگر در ختوں کے،کہ ان میں کبھی پھل موجود ہوتے ہیں اور کبھی نہیں۔
حین کا لغوی نکتہ۔
الحین فی اللغةوقت غیر محدود،وقد تقترن بہ قرينةتحدہ
حین لغت میں،غیر محدود وقت کو کہتے ہیں،ہاں کوئی قرینہ موجود ہو تو محدود وقت کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔
باذن ربھا۔ ای بامر ربھا
یعنی اللہ کے حکم سے وہ ہمیشہ ثمر دار رہتا ہے۔
اس آیت پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے نیز یہ آیت دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔
((جلال الدین القاسمی))
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں