وائرل کلپ پر معترضین کے بیجا اعتراض کا جواب نمبر 1:
ان الذین کذبوا بایتنا واستکبروا عنھا لاتفتح لھم ابواب السماء ولایدخلون الجنةحتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔(اعراف)
اس آیت کریمہ کو وہ مولوی صاحب کافروں کے ساتھ خاص مان رہےہیں۔
ان کو یہ معلوم نہیں کہ۔
کسی قوم کو کتاب دی جائے اور قوم اس کتاب کو لے مگر اس پر عمل نہ کرے تو یہ عمل نہ کرنا،
تکذیب آیات (آیتوں کو جھٹلانا) کے مرادف ہے۔
دلیل۔
مثل الذین حملواالتوراةثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا۔بئس مثل القوم الذین کذبوا بایاتنا۔
یہود کو تورات دی گئی مگر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو کہا گیا کہ ان کی مثال گدھے جیسی ہے اور بری ہے وہ قوم جس نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔
ان صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آخر اللہ نے یہ گدھے کی مثال سورہ جمعہ ہی میں کیوں دی۔
مفسرین نے یہ نکتہ بیان کیاہے کہ اس میں ہر اس خطیب کو تنبیہ ہے جو لوگوں کے سامنے جمعہ میں قرآن بیان کرتا ہے مگر قرآن پر عمل نہیں کرتا۔
حضور والاکو یہ بھی معلوم نہیں کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص سبب کانہیں۔
نیز۔
ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا۔
(سورہ نساء)
کیا یہ آیت کافروں کے بارے میں ہے؟
والذین کذبوا بایاتنا واستکبروا عنھا اولئک اصحاب النار ،ھم فیھا خالدون۔۔ (اعراف)
اس آیت میں،تعلیق علی المحال ،نہیں ہے مگر انجام وہی بتایا گیا ہے
ان صاحب کو بلاغت بھی نہیں آتی۔
قمةالبلاغة فی التحذیر عنھا۔۔
یعنی تکذیب آیات اور استکبار سے ڈرانے کے لیے بلاغت کی انتہا ہے۔
تفسیر الماوردی میں ہے۔
حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔
والعرب تضرب ھذا للمبالغة
عرب اس محاورے کو مبالغہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اہم سوال۔
اگر مسلمان شرک کرے تو کیا وہ کبھی جنت میں جائیگا؟
سورہ انعام میں اٹھارہ پیغمبروں کا ان کے ناموں کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد کہا گیا،
ولو اشرکوا لحبط عنھم ماکانوا یعملون۔
سورہ یوسف میں کہا گیا ۔
وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون۔
تو انہی مولوی صاحب سے سوال ہے کہ اگر کوئی نام کا مسلمان۔
تکذیب آیات اور استکبار کرے تو کیا اس کے اوپر یہ حکم منطبق ہوگا یا نہیں؟
اور جہاں تک ان الذین کو الاالذین پڑھنےکا ہے تو ان صاحب کو اپنے کان کا علاج کرانا چاہیے۔
اور اگر زبان سے غلطی سے کوئی لفظ نکل بھی جائے تو اسے سہو اور غلطی پر محمول کیا جائیگا نہ کہ اسے فتنہ بنا یا جائیگا۔ اور حدیث سے ثابت ہے کہ میری امت سے تین چیزیں اٹھالی گئی ہیں۔
خطا۔ نسیان۔۔۔استکراہ
مولوی صاحب نے اس حدیث کو بھی نظر انداز کرکے اپنی جہالت ظاہر کی ہے اور فتنے کو ہوا دی ہے۔
ان کو یہ معلوم ہوگا کہ ابھی رمضان میں کتنے حفاظ نے تراویح میں قرآن سنایا ہے اور کتنی غلطیاں کی ہیں۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اچھے اچھے حفاظ سے بھی قرات میں غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔
اس کو فتنہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
نیز تم ہمیں غیر مقلدیت کا طعنہ مت دو یہ الزام مالا یلزم ہے۔
ہم اہل حدیث ہیں۔اہل حق کے لئے غیر مقلدیت کانام ایجاد کرکے تم نے وہی حرکت کی ہے کہ۔۔
کفار مکہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نام محمد، کو بگاڑ کر آپ کو مذمم کہتے تھے۔( بخاری)
ذرا سوچو کہ اہل حدیث دشمنی میں تم کہاں پہنچ گئے ہو۔۔
تعویذ گنڈوں پر اکتفا کرو۔۔۔ یہ علم کا میدان ہے ،تمہارے بخیے ادھیڑ دئے جائیں گے۔
((جلال الدین القاسمی))
....
وائرل کلپ پر معترضین کے بیجا اعتراض کا جواب نمبر 2:
ولایدخلون الجنةحتی یلج الجمل فی سم الخیاط( سورہ اعراف)
ابوالقاسم محمد الیاس بن عبد اللہ گڈھوی۔۔ایک دیوبندی عالم ہیں۔ان کی بلاغت پر ایک کتاب ہے جو ادارة الصدیق، ڈابھیل۔گجرات سے چھپی ہے اس کے صفحہ 316 پر لکھتے ہیں،
مبالغہ۔۔کسی صفت کی شدت یاضعف کے متعلق اس درجے پر پہنچنے کا دعوی کرنا جو دور از قیاس یا ناممکن ہو۔
جیسے۔
ولایدخلون الجنةحتی یلج الجمل فی سم الخیاط
ملحوظ رہے کہ وصف میں مبالغہ تین طرح سے ہوتا ہے۔
تبلیغ۔۔وہ وصف جس سے مبالغہ بیان کیا جارہا ہےاس کا وقوع عقلااور عادة دونوں لحاظ سے ممکن ہو۔۔جیسے۔
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجود بالخیر من الریح المرسلة
اغراق۔۔
وہ وصف جس سے مبالغہ کیا جارہا ہے اس کا وقوع عقلا تو بعید نہ ہو مگر عادتا ناممکن ہو جیسے حدیث ام زرع۔
لو جمعت کل شیئ اعطانیہ ما بلغ اصغر آنیةابی زرع۔۔
غلو۔
وہ وصف جس سے مبالغہ کیا جارہا یے اس کا وقوع عقلا اور عادتا دونوں اعتبار سے محال ہو
غلو مقبول۔ ۔جیسے
یکاد زیتھا یضیئ ولولم تمسسہ نار۔
بعض مفسرین نے ولا یدخلون الجنةحتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ ۔۔۔کو مبالغہ پر محمول کیا ہے اور مبالغہ میں بھی محال عادی پر محمول کیا ہے یعنی عادتا محال ہے ،عقلا محال نہیں۔
اور جب خود تمہارے ہی مسلک دیوبند کے عالم اپنی کتاب میں آیت ،ولایدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔۔ کو مبالغہ کی۔مثال میں پیش کررہے ہیں تو، اے مولوی صاحب! تم اتنا شور کیوں مچار ہے ہو؟
نوٹ۔ مولوی صاحب!یہ علم کا میدان ہے ،ذرا پگڑی سنبھال کر رکھنا۔
((جلال الدین القاسمی))
.......
وائرل کلپ پر جاہل معترضین کے بیجا اعتراض کا جواب نمبر 3:
ولایدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔( اعراف)
اھل حدیث کا عقیدہ:
گناہ کبیرہ کا مرتکب ،کافر نہیں۔
وہ جنت میں ضرور جائیگا اگر چہ اسے دخول اولی ،حاصل نہ ہو.
دلیل
ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء( نساء)
مشرک کبھی نہیں بخشا جائیگا.
اس کے علاوہ جس بھی گناہ کے مرتکب کو اللہ چاہے بخش دے۔
نبی کی سفارش بھی مشرک کو حاصل نہ ہوگی۔
فھی نائلةان شاءاللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شیئا۔( مسلم)
بعض گنہ گاروں کو جنت میں دخول اولی حاصل نہ ہوگا ،انھیں پہلے۔جہنم میں ڈالاجائیگا پھر جب اللہ چاہے گا انھیں جھنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا۔
اگر کوئی مسلمان بھی شرک کرے گا تو اس کے سارے اعمال رائیگاں ہوجائیں گے اور وہ بھی ابدی جھنم کا مستحق ہوگا ۔
دلیل
لئن اشرکت لیحبطن عملک۔( زمر)
اسی طرح اگر کوئی مسلمان جان بوجھ کر آیات کی تکذیب اور ان سے استکبار کرے گا تو بھی کافر مانا جائیگااور وہ بھی جنت میں کبھی نہیں جائیگا۔
ہاں جان بوجھ کر اگر تکذیب آیات اور استکبار نہیں کرتا اور گناہوں میں ملوث رہتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے جنت میں دخول اولی حاصل نہ ہو ،پہلے اسے جھنم میں ڈالا جائے پھر سزا بھگت کر جنت میں جائے.
((جلال الدین القاسمی))
.....
وائرل کلپ پر معترضین کے بیجا اعتراض کا جواب نمبر 4:
ان الذین کذبوا بایاتنا واستکبروا عنھا لاتفتح لھم ابواب السماء ولایدخلون الجنة.حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔وکذلک نجزی المجرمین۔(اعراف)
مولوی صاحب کاکہنا ہے کہ اس سے کافر ہی مراد ہیں تو۔
پہلاسوال۔
پوری آیت میں کہیں بھی لفظ،کفر،دکھادو۔
دوسراسوال۔
اگر صرف کافر ہی مراد ہیں تو آیت کریمہ کا اختتام، المجرمین، پر کیوں ہے۔۔الکافرین پر کیوں نہیں؟
حتی یلج الجمل فی سم الخیاط،
مبالغہ ہے اور والتعلیق علی المحال معروف فی کلام العرب
شاعر کہتا ہے۔
اذاشاب الغراب اتیت اھلی
وصار القار کاللبن الحلیب
( محاسن التاویل للقاسمی)
یہ عرب کا محاورہ ہے۔
لاافعل کذا حتی یشیب الغراب۔
میں ایسا نہیں کروں گا یہاں تک کہ کوا بوڑھاہوجائے
(تفسیرالسمعانی)
اور یہاں جمل بضم الجیم وتشدید المیم ،بھی ہوسکتا ہے۔جس کے معنی،الحبل الغلیظ (موٹی رسی)کے بھی ہوسکتے ہیں
اصل میں مرجئہ کے یہاں اعمال، داخل ایمان، نہیں۔۔
اس وجہ سے یہ مولوی بہت پھڑپھڑا رہا ہے
آخر میں ان مولوی صاحب کو کو ایک ہوم ورک دیتا ہوں۔
اگر تمہیں قرآن کی بڑی سمجھ ہے تو یہ بتاؤ کہ۔۔
اس آیت کریمہ میں ،لاتفتح (بتشدیدالتاء)یعنی باب تفعیل سے کیوں ہے؟
جبکہ یہ معنی باب فتح یفتح ،سے بھی پورا ہوسکتا تھا۔
کیونکہ دونوں کا معنی ،کھولنا،ہے
تو ایک حرف تاء کو اور کیوں بڑھایا گیا؟
((جلال الدین القاسمی))
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں